islamic Information
ناجائز آمدنی کا عبرتناک انجام-
ایک وکیل صاحب عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح ہوتے تھے۔ فیس لاکھوں میں تھی … بڑے بڑے مجرموں کو
بری کروالیا کرتے تھے … آئیے ! اب ان کا عبرتناک انجام پڑھئے-
پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جات
کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا ۔ سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے بیٹے اپنی
بیویوں اور بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں-
وکیل صاحب گھر میں اکیلے رہ جا۔ جاتے ہیں۔ اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی
یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئےدی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے۔
لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔۔۔
باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا۔ پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کیلئے 24گھنٹے کا ملازم اور ایک سکیورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے۔
ظالموں کیلئے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا وکیل یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی نسبتی بہن کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا ۔ رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کر کے اپنے والد کو ملنے پر مجبور کر دیا-
وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا …
ان کے باپ کے کمرے سے شدید بد بو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے یوں وکیل صاحب اس بد بودار کیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے- دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا …
جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا. چونکہ اُن کو نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سکیورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا۔
ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا۔ بعد ازاں ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے۔ وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے۔
انکے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا… بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی
اور کا نہیں بلا شبہ وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا۔ سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولادآزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں؟
دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر بھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہوں یقینا یہ کام وکیل صاحب نہیں کر سکے۔
مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کر لیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا-
مگر ہمارا اور آپ کا وقت ابھی موجود ہے۔
کسی دھوکے میں نہ رہتا۔ دھوکہ بڑا سمجھ دار ہے۔ پیچھا کر کے رہتا ہے۔
Islamic Information
dailyquotesz.com